بخدمت سیکریٹری مملکت برائے صحت و سماجی نگہداش،
ہم سوگوار والدین کے گروپ کی بخثیت سے آپ کی خدمت میں رقم دراز ہیں تاکہ بچوں کے ضائع ہونے میں نسلی اعتبار سے عدم مساوات کے خاتمے کے لیے فوری کاروائی کے لیے آپ سے بات کی جائے۔
برطانیہ میں بچوں کے ضائع ہونے کی شرح سیاہ فام اور ایشیائی خاندانوں میں سفید فام خاندانوں کے مقابلے کافی زیادہ ہے۔
یہ ناقابل قبول ہے۔ کسی بھی بچے کو اپنے رنگ و نسل کی بنیادوں پر موت کا خطرہ لاحق نہیں ہونا چاہیے۔
اپنے تجربات کو روشناس کرنے کے مقصد سے ہم میں سے ہر ایک نے ذیل میں ایک مختصر تحریر قلم بند کی ہے۔
ویشالی
میری بیٹی جیا 19 اگست، 2019 کو 22 ہفتوں کی پیدا ہوئی تھی۔ وہ 14 منٹ تک زندہ رہی اور میرے شوہر کی انگلی پکڑے ہوئی تھی جب اس نے میری گود میں دم توڈ دیا۔
ابتدا میں ہی، مجھے بتایا گیا کہ میرے حمل کو بہت زیادہ خطرہ ہے۔ اس کے باوجود، مجھے کوئی اضافی نگہداشت نہیں مل پائی۔ میرے 20 ہفتہ والے اسکین کے روز، کلینک اور مڈوائفری ٹیم کے درمیان مواصلات کی خرابی کی وجہ سے مجھے واپس نکالا گیا۔ جب میں نے کہا کہ مجھے غیر معمولی علامات کا محسوس ہورہے ہین، تو میرے خدشات کو نظر انداز کر دیا گیا۔ مجھے یقین ہے کہ اگر میری بات سنجیدہ لیا گیا ہوتا اور صحیح مشورہ دیا گیا ہوتا تو میری بیٹی آج زندہ ہوتی۔
ایک بچے کی موت کے بعد زندگی گزارنا ایسا ہے جس کی میں کسی اور کے لیے خواہش بھی نہیں کر سکتی۔
ہمیں اس بات کو یقینی بنانے کے لیے آپکی مدد کی ضرورت ہے کہ حکومت نوٹس لے اور زچگی کی نگہداشت میں نسلی عدم مساوات کو ختم کرنے اقدامات اٹھائے۔ اپنی جلد کی رنگت کی وجہ سے کسی کو بھی اپنے بچے کو کھونے کا خطرہ نہیں ہونا چاہیے۔
بھاونا اور وجے
مئی 2019 میں، پیدائش کے فوراً بعد ہی ہمارے بیٹے جوشن کی افسوسناک موت واقع ہوگئی۔ جوشن کی موت کی تحقیقات کے لیے ہمیں تین سالوں تک انتظار کرنا پڑا، جہاں ایک آزاد کورونر نے تصدیق کی کہ طبی مداخلت کی عدم موجودگی اسکی موت کا سبب بنا تھا۔ اسپتال کی طرف سے بالآخر یہ تسلیم کرنے اور معافی مانگنے کے لیے ہمیں کافی جدہ جہد کرنی پڑی۔
ہمیں اس بات کا شدّت سے احساس ہے کہ دائیوں اور ڈاکٹروں نے ہمارے خدشات کو نہیں سنا جبکہ بھاونا لیبر کی حالت میں تھی۔ ان کے حرکات وسکنات سے صاف ظاہر ہورہا تھا کہ بھاونا لیبر کے دوران جس تکلیف سے گزر رہی تھی انکے دلوں میں اس کے ساتھ زرا بھی ہمدردی پیدا ہیں ہوئی۔ اگر ایسی صورت حال پر کوئی فوری ردعمل سامنے آتا، تو آچ ہمارا بیٹا جوشن اپنا 5واں یوم پیدائش منانے کے لیے ہمارے ساتھ یہاں موجود ہوتا۔
ہمارے جیسے اور بھی بہت سے خاندان ہیں جنہوں نے اپنا بچہ کھو دیا اس وجہ سے کہ طبی عملے کے افراد ان نے انکی بات کو نہیں سنا۔ ہم عوامی بیداری کو بڑھانا چاہتے ہیں، تاکہ اور کسی خاندان کو اس تکلیف کا سامنا نہیں کرنا پڑے جو ہم روزانہ کرتے ہیں۔
امبر اور ڈیرن
2022 میں، ہماری خوشیاں اس وقت صدمے میں بدل گئیں جب ہمارے جڑواں بچے،جو دو بار حمل گرنے کے بعد حمل میں ٹھہرے تھے، وہ قبل از وقت پیدا ہوئے اور لاپرواہی اور ہماری نگہداشت میں مواقع ضائع ہونے کی وجہ سے مر گیے۔
ایک ہائي رسک والے حمل کے دوران مدد کے لیے ہماری اپیل کے باوجود، اہم ملاقاتوں کو منسوخ یا نظر انداز کر دیا گیا، اور ہمارے خدشات کو مسترد کر دیا گیا۔ بعد کے ایک جائزے میں نو ایسے واقعات کو عیاں کیا گیا جہاں بروقت مداخلت سے ہمارے بچوں کی زندگی بچائی جاسکتی تھی۔ ہماری یادیں اب دکھ سے بھر چکی ہیں_پیدائش اور الوداعی جنازے، اور ان کی قبروں کی زیارات۔ یہ نقصان اب ہم سے آگے تک پھیلا ہوا ہے؛ اس کا اثر ہماری بڑی بیٹی، ہمارے خاندان، اور دوستوں پر پڑتا ہے۔
ہم نے ایک ایسے نظام پر بھروسہ کیا تھا جس نے ہمیں بری طرح ناکام کیا، ہمارے اندر ایسے سوالات چھوڑے ہیں کہ آیا ہمارا اعلاج تب مختلف ہوتا کیا اگر ہمارا پس منظر مختلف ہوتا۔ اس بات کا احساس کرنا کافی مایوس کن ہے کہ نسلی عدم مساوات ہمارے المیہ کی وجوہات رہی ہونگی۔
ہماری امیدیں اب اپنی داستان دوسروں کو تک پہنچانے، تبدیلی کی وکالت کرنے، اور اس بات کو یقینی بنانے میں ہے کہ دوسرے خاندانوں کو وہ نگہداشت اور مدد حاصل ہو جو ان کا حق ہے۔
2021 کے دستیاب تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق، سیاہ فام بچوں کے مردہ پیدا ہونے کے امکانات سفید فام بچوں کے مقابلے میں دو گنا سے بھی زیادہ تھے، جبکہ ایشیائی بچوں کے مردہ پیدا ہونے کے امکانات 50 فیصد سے بھی زیادہ تھے۔ سفید فام بچوں کے مقابلے میں سیاہ فام اور ایشیائی بچوں کے پیدائش کے فوراً بعد مرنے کے بھی امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔1
حیران کن بات یہ ہے کہ سینڈز نے حساب لگایا ہے کہ اگر 2017 اور 2021 کے درمیان، مردہ پیدائش اور نوزائد بچوں میں شرح اموات سیاہ فام اور ایشیائی بچوں میں سفید فام بچوں کی طرح ہوتی، تو 1,704 بچے زندہ بچ گیے ہوتے۔
ہم سب نے سینڈز لسننگ پروجیکٹ میں شرکت کی، جس نے سیاہ فام اور ایشیائی سوگوار والدین کے ایک گروپ سے انہیں ملنے والی نگہداشت کے متلق معلومات حاصل کیں۔ آدھے شرکاء کا ماننا تھا کہ انہیں بدترین نگہداشت ملی یا ان کی نسلی پہچان کی وجہ سے ہیلتھ کیئر عملے نے ان کے ساتھ مختلف برتاو کیا تھا۔2
افسوس کا مقام ہے، ہم جانتے ہیں کہ یہ مثالیں الگ تھلگ مثالیں نہیں ہیں، بلکہ منظم نسل پرستی کے ایک منصوبہ بند مسلے کا حصہ ہیں جس کا کئی دوسرے سیاہ فام، ایشیائی اور مخلوط نسلی خاندان زچگی اور نوزائد بچوں کی نگہداشت کے دوران سامنا کرتے ہیں۔ 3
اس کا سدباب کرنے کے لیے فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہم سینڈز کی طرف سے #EndInequalityInBabyLoss مہم کی حمایت کر تے ہیں، جو سیاہ فام اور ایشیائی بچوں کی زندگیوں کو بچانے کے لیے نگہداشت کو محفوظ اور زیادہ مساوی بنانے کے لیے سرکار، این ایچ ایس اور پیشہ ورانہ اداروں سے کارروائی کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔
اگلی سرکار کے پاس ایک اہم موقع ہے کہ وہ بالآخر بچوں کے ضائع ہونے میں نسلی عدم مساوات کا خاتمہ کرے۔ یہ فیصلہ لیا جانا چائیے۔
ہم آپ سے مل کر اس پر اور اپنے ذاتی تجربات سے متعلق مزید تفصیل سے گفتگو کرنے کے موقے کا خیر مقدم کریں گے۔
آپ کے خیر اندیش،
ویشالی
بھاونا اور وجے
امبر اور ڈیرن
2) سینڈز لسننگ منصوبہ، دسمبر 2023< https://www.sands.org.uk/sites/default/files/Sands_Listening_Project_Report_Publication_of_Findings_2023.pdf
3) منظم نسل پرستی، باڈیوں کا نہ ٹوٹنا، پیدائشی حقوق2022 | سیاہ فام زچگی کے تجربات کا سروے، پانچ X مزید 2022 | پوشیدہ: نسلی تفرق کی شکار اقلیتی برادریوں سے تعلق رکھنے والی مسلم خواتین کے زچگی کے دوران تجربات، مسلم خواتین کا نیٹ ورک یوکے 2022 | سیاہ فام عوام، نسل پرستی اور انسانی حقوق، انسانی حقوق کی جوائنٹ کمیٹی 2020